Back to all community books

True Super Heroes: Amazing Stories of the Prophets

Wisdom Digital art style

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی کہانی اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو تخلیق فرمایا تو اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا کہ وہ زمین پر اپنا ایک نائب یعنی خلیفہ بنانے والا ہے۔ فرشتوں نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "کیا تُو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا، حالانکہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں؟" (سورہ بقرہ، 2:30) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" (سورہ بقرہ، 2:30) حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے مراحل: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مختلف مراحل میں تخلیق فرمایا جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر موجود ہے: مٹی سے ابتداء: اللہ تعالیٰ نے مٹی سے انسان کی تخلیق کی ابتداء کی۔ "اور ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا جو سُوکھی ہوئی گارے سے تھی" (سورہ حجر، 15:26) پتلا (گیلی مٹی): پھر اس مٹی کو گارے کی شکل دی گئی۔ خشک مٹی: پھر اس گارے کو خشک کیا گیا جس سے وہ بجنے والی مٹی بن گئی۔ روح کا پھونکنا: جب جسمانی ساخت مکمل ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح پھونکی۔ "پھر جب میں اسے ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔" (سورہ ص، 38:72) اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو بہترین صورت میں تخلیق فرمایا اور انہیں علم سے نوازا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی عطا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر فرشتوں سے ان چیزوں کے نام پوچھے تو وہ نہ بتا سکے۔ اس پر فرشتوں نے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "پاک ہے تُو، ہمیں کچھ علم نہیں سوا اس کے جو تُو نے ہمیں سکھایا، بے شک تُو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔" (سورہ بقرہ، 2:32) فرشتوں کا سجدہ: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ تمام فرشتوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی لیکن ابلیس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: "میں اس سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔" (سورہ اعراف، 7:12) اس تکبر کی وجہ سے ابلیس کو جنت سے نکال دیا گیا اور وہ شیطان کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت حوا علیہا السلام کی تخلیق: حضرت آدم علیہ السلام کی تنہائی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کے بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جنت میں سکونت اور آزمائش: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت میں رہنے کی اجازت دی اور انہیں تمام نعمتوں سے نوازا۔ لیکن انہیں ایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان کا فریب: شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو بہکانے کی کوشش کی اور انہیں یہ کہہ کر ورغلایا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور فرشتے بن جائیں گے۔ شیطان کے فریب میں آ کر انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پر ان کی ستر پوشی ظاہر ہو گئی اور وہ شرمندہ ہوئے۔ توبہ اور زمین پر نزول: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ انہوں نے یہ دعا کی: "اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تُو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔" (سورہ اعراف، 7:23) اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی لیکن انہیں زمین پر بھیج دیا تاکہ وہ یہاں زندگی گزاریں اور اللہ تعالیٰ کی خلافت کا فریضہ سرانجام دیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو نبوت سے نوازا اور انہیں اپنی ہدایت سے آگاہ کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اطاعت کی تعلیم دی۔ اس کہانی سے حاصل ہونے والے اسباق: اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کامل ہے۔ تکبر اور نافرمانی کا انجام برا ہوتا ہے۔ توبہ کی اہمیت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بیان ہے۔ زندگی ایک آزمائش ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ضروری ہے۔۔

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو تخلیق فرمایا تو اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا کہ وہ زمین پر اپنا ایک نائب یعنی خلیفہ بنانے والا ہے۔ فرشتوں نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "کیا تُو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا، حالانکہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں؟" (سورہ بقرہ، 2:30) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" (سورہ بقرہ، 2:30)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مختلف مراحل میں تخلیق فرمایا جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر موجود ہے: مٹی سے ابتداء: اللہ تعالیٰ نے مٹی سے انسان کی تخلیق کی ابتداء کی۔ "اور ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا جو سُوکھی ہوئی گارے سے تھی" (سورہ حجر، 15:26) پتلا (گیلی مٹی): پھر اس مٹی کو گارے کی شکل دی گئی۔ خشک مٹی: پھر اس گارے کو خشک کیا گیا جس سے وہ بجنے والی مٹی بن گئی۔

جب جسمانی ساخت مکمل ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح پھونکی۔ "پھر جب میں اسے ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔" (سورہ ص، 38:72) اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو بہترین صورت میں تخلیق فرمایا اور انہیں علم سے نوازا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر فرشتوں سے ان چیزوں کے نام پوچھے تو وہ نہ بتا سکے۔ اس پر فرشتوں نے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "پاک ہے تُو، ہمیں کچھ علم نہیں سوا اس کے جو تُو نے ہمیں سکھایا، بے شک تُو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔" (سورہ بقرہ، 2:32)

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ تمام فرشتوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی لیکن ابلیس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔" (سورہ اعراف، 7:12) اس تکبر کی وجہ سے ابلیس کو جنت سے نکال دیا گیا اور وہ شیطان کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تنہائی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کے بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت میں رہنے کی اجازت دی اور انہیں تمام نعمتوں سے نوازا۔ لیکن انہیں ایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو بہکانے کی کوشش کی اور انہیں یہ کہہ کر ورغلایا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور فرشتے بن جائیں گے۔ شیطان کے فریب میں آ کر انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پر ان کی ستر پوشی ظاہر ہو گئی اور وہ شرمندہ ہوئے۔

Related books

Discover other books with the same style

CreateBookAI © 2025

Terms Of Service Confidentiality Policy Cookies